افسانہ: تنگ پگڈنڈی


وہ ہر روز آٹھ بجے دفتر کے لیے نکلتا تھا اس کا دوست زین اور وہ ایک ہی فلیٹ میں رہتے تھے زین ایک ٹیلی کام کمپنی میں انجینیر تھا۔ وہ رات دیر سے فلیٹ پر آتا اور صبح تاخیر سے کام پہ جاتا۔ روحان لندن کے ایک نجی بنک میں اسسٹنٹ منیجر کی پوسٹ پہ کام کرتا تھا۔ اس دن بنک پہنچ کر اس نے اپنے لیپ ٹاپ کو آن کیا اور کل کی میل چیک کرنے لگا۔ اس کے بعد پروگریس رپورٹ نکال لی اور کام میں مصروف ہوگیا۔ اسی دوران اس کے موبائل فون پر پاکستان کے ایک غیر مانوس نمبر سے کال آنے لگی۔

اس نے فون اٹھایا تو دوسری طرف اس کے ماموں خالد تھے۔ ان کی آواز میں لغزش اور بے چینی تھی روحان پتر! اگر ہو سکے تو ایک دو دن میں پاکستان لوٹ آنا۔ بھائی صاحب کی طبیعت انتہائی خراب ہے۔ کل رات انہیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ ابھی بھی وہ آئی سی یو میں ہیں۔ ڈاکٹرز نے کہا ہے آپ سب ان کے لیے دعا کریں۔ تمہاری ماں اور بہن بے حد پریشان ہیں، تمہاری ماں نے اصرار کیا کہ میں تمہیں اطلاع کردوں۔ کال کٹنے کے بعد اس نے گہری سانس لی۔ اپنا کمپیوٹر سیٹ بند کیا اور اپنے باس کے دفتر جا کر ساری بات اس کے گوش گزار کی۔ اس کا باس جرمن تھا اور کام کی وجہ سے اس کی خاصی عزت کرتا تھا۔ اس نے کہا تم فوراً پاکستان جاؤ تمہاری فیملی کو تمہاری ضرورت ہے۔

اس دن طبیعت میں بوجھل پن کی وجہ سے وہ دفتر سے جلد واپس اپنے فلیٹ آگیا۔ نک ٹائی کو تھوڑا ڈھیلہ کرکے اس نے جوتے اور جرابیں اتاریں۔ کچن کیبن میں جاکر الیکٹرک کیٹل سے کافی کے لئے پانی گرم کیا۔ کافی کے جار سے ایک چمچ کافی کھولتے ہوئے پانی میں ڈالی اور کافی کے مگ میں چمچ ہلاتا فلیٹ کی بالکونی میں پڑی ایزی چئیر پر آخر بیٹھ گیا۔ اس کا فلیٹ لندن کے کم پوش علاقے میں تھا۔ سامنے میونسپل کارپوریشن کی کثیر منزلہ بلڈنگ اور نیچے دو رویہ کشادہ سڑک تھی، جہاں سے چھوٹی بڑی گاڑیاں فراٹے بھرتے ہوئے گزر رہی تھیں۔ اوپر شفاف نیلا آسمان اور لندن کا بھیگا موسم ہمیشہ کی طرح اس شام کو بھی یادگار بنا رہا تھا۔ وہ یہاں بہت کم بیٹھتا تھا۔ دفتر سے فراغت پانے کے بعد کچھ دیر آرام کرتا اور پھر لندن کی روشن گلیوں اور جاگتے چوراہوں پر اپنی اداس شاموں کو کھیلنے کودنے کے لیے کھلا چھوڑ دیتا۔

اس شام اس کا کہیں جانے کے لئے دل نہیں چاہا۔ اس نے کافی کا مگ پاس پڑی شیشے کی ٹیبل اور ٹانگیں سامنے سٹیل کی گرل پر رکھ دیں، ایزی چئیر سے ایک دو بار خود کو جھولا دیا اور پھر آنکھیں میچ کر سوچ کی کسی گہری کھائی میں غرق ہوگیا۔

روحان ہاشم گزشتہ پانچ برس سے لندن میں مقیم تھا۔ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ وہ فیصل آباد کے ایک مقامی بنک میں کام کرتا رہا۔ ایک دوست کی معرفت اسے لندن آنے کا موقع ملا اور پھر یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ اس کا تعلق فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں سے تھا۔ والدین کا اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سب کی آنکھ کا تارا رہا۔ پیدا ہونے پر پورے گاؤں میں مٹھائی بانٹی گئی اور خوشیوں کے شادیانے بجائے گئے۔

ماسٹر ہاشم کے ہاں شادی کے پندرہ سال بعد اولاد ہوئی تھی۔ وہ اس دن بہت زیادہ خوش تھے، ننھے روحان کی پیدائش پر گھر میں شادی کا سا سماں تھا۔ یہ خوشی محض ہاشم خان کی نہیں تھی بلکہ اس بچے کی آمد پر پورا گاؤں خوش تھا۔ جو تحفے تحائف ماسٹر صاحب کے گھر میں آ رہے تھے ان کا شمار ممکن نہیں تھا۔ ماسٹر ہاشم خان کا شمار گاؤں کے متمول افراد میں ہوتا تھا۔ اپنے علاقے کے واحد ماسٹر ڈگری ہولڈر تھے۔ اپنی ڈگری کے ابتدائی ایام میں گاؤں کے سرکاری سکول میں بچوں کو حساب پڑھاتے رہے مگر جلد ہی سرکار کی نوکری سے اکتا گئے اور ملازمت چھوڑ کر زمین داری اور پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ہوگئے۔

ملازمت چھوڑے زمانہ بیت گیا مگر ساتھ لگا ماسٹر جی کا سابقہ ہمیشہ کے لیے نام کا حصہ بن گیا۔ پورے علاقے میں ان کی عزت تھی لوگوں کے اصرار پر ناظم کا الیکشن بھی لڑ چکے تھے۔ گاؤں کا نمبردار ان ہی کی برادری کا تھا، مگر لوگ اس کی بجائے اپنے فیصلے ماسٹر جی کے پاس لے کر آتے اور ان کو ہی اپنا نمبردار اور پنچ مانتے۔ عزت، وقار پیسا، نام ہر چیز تھی کمی تھی تو صرف اولاد کی۔ شادی کو پندرہ برس بیت گئے تھے مگر بیوی کی گود اور گھر کا آنگن بچے کی کلکاریوں کے بغیر سونا تھا۔

ماسٹر جی ہر وقت رنجیدہ رہتے کہ میرے مرنے کے بعد میری جائیداد، کاروبار آخر کس کے کام آئے گا۔ دس سال تک مسلسل پورے ملک کے درباروں درگاہوں، پیروں فقیروں، طبیبوں کے ہاں آتے جاتے رہے کہ کہیں سے ان کی سنی جائے۔ ایک دن اللہ نے سن لی اور گھر کا سونا آنگن ننھے مہمان کی کلکاریاں سے چہک اٹھا۔ روحان شروع دن سے ہی ذہین اور سب کی آنکھ کا تارا تھا۔ والدین سے لے کر رشتہ داروں تک سب اس سے والہانہ محبت کرتے تھے۔ کچھ اس میں ماسٹر صاحب کی شرافت اور نیک نامی کا بھی دخل تھا کہ ان کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے سب ہی روحان کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کیے رکھتے۔

وقت تیزی سے کروٹ بدلتا رہا۔ روحان نے گاؤں کے سرکاری سکول سے میٹرک کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کر لیا۔ اس کے بعد اس کو کالج کی پرہائی کے لیے قریبی شہر بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو انہوں نے بیٹے کے لیے شہر میں ایک ذاتی مکان خریدا اور اپنی بڑی بہن جو کہ بیوہ ہونے کے سبب کافی عرصے سے ان کے گھر ہی مقیم تھیں کو ساتھ بھیجا تاکہ اس کا پوری طرح سے خیال رکھا جا سکے۔ خود بھی وہ کاروباری معاملات سے فراغت کے بعد ہفتے میں دو تین بار شہر کا چکر لگا لیتے اور ضرورت کی تمام چیزیں وہاں پہنچا آتے۔

کالج کے بعد یونیورسٹی تک کا سفر اس نے نہایت کامیابی سے طے کیا۔ یونیورسٹی سے سی اے کرنے کے بعد اس کے من میں جاب کا خیال شدت کے ساتھ مچلنے لگا۔ گھر والوں نے اس کی خواہش کے آگے سر خم تسلیم کرلیا۔ اس نے ایک مقامی بنک میں کیشیئر کی ملازمت اختیار کرلی۔ ماسٹر صاحب کے چھوٹے بھائی اجمل پانچ سال پہلے ایک ٹریفک حادثے میں اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ وہ ان کی اچانک موت پر کافی دکھی رہتے تھے۔ روحان کے لڑکپن کے دنوں میں انہوں نے اس کی منگنی اجمل کی سب سے چھوٹی بیٹی سدرہ سے کردی تھی۔

منگنی کے ٹھیک پانچ سال بعد اجمل حمید اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سدرہ اور اس کی ماں جمیلہ کو حاجی صاحب اپنے گھر لے آئے اور انہیں اپنے خاندان سے بھی بڑھ کر عزیز رکھا۔ روحان کو سدرہ سے ذرا بھر بھی التفات نہیں تھا۔ وہ اسے اپنی چھوٹی بہن آمنہ کی طرح ہی سمجھتا۔ روحان کی بنک میں نوکری کے بعد ماسٹر صاحب سدرہ اور اس کے رشتے کے حوالے سے فکرمند سے رہنے لگے۔ انہیں اپنے مرحوم بھائی سےکیے گئے وعدے کا مکمل احساس اور پاس تھا۔

وہ گاہے بگاہے جمیلہ کو یقین دلاتے رہتے تھے کہ روحان کی رضامندی ان کی ذات سے جڑی ہے۔ وہ اس کو شادی کے لیے جب کہیں گے وہ فوری مان جائے گا۔ انہیں اس کی سعادت مندی پر کوئی شک نا تھا۔ گرمیوں کی ایک حبس ذدہ شام وہ بیٹے کو دھان کی فصل دیکھنے ساتھ زمینوں پر لے گئے۔ کھیت سے گھر کی جانب جانے والی ایک چھوٹی سی پگڈنڈی پر بیٹے کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر وہ گویا ہوئے دیکھو بیٹا! ”تمہیں پتہ ہے میں دل کا مریض ہوں۔ آئے روز یہ بیماری اپنی موجودگی کا احساس دلاتی رہتی ہے۔

ہر وقت یہ خیال میرے دامن گیر رہتا ہے کہ اپنے حصے کی زندگی کب کا جی چکا ہوں۔ اللہ نے شاید کسی خاص فریضے یا مقصد کی تکمیل کے لیے مجھے زندہ رکھا ہوا ہے۔ تم میری زندگی اور تمام تر تمناؤں کا حاصل ہو۔ تمہارے ہونے کے احساس سے مذید جی اٹھنے کی خواہش سینے میں مچلنے لگتی ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ سب کچھ ہماری مرضی سے نہیں ہو سکتا۔ بیٹا! میرے کندھے اور ضمیر پر بوجھ ہے جو اتارنا چاہتا ہوں۔ تمہارے مرحوم چچا کو ان کے مرنے سے پہلے میں نے زبان دی تھی کہ سدرہ کو اپنی بیٹی سے بڑھ کر عزیز رکھوں گا اور اپنی بہو بناؤں گا۔

میں اپنے مرحوم بھائی سے کیا گیا وعدہ پورا کرنا چاہتا ہوں۔ سدرہ کو تمہارے عقد میں دینا چاہتا ہوں، وہ بچپن سے تم سے منسوب ہے اس نے تمہارے علاوہ کبھی کسی اور کے متعلق نہیں سوچا۔ مجھے پوری امید ہے تم اپنے مرحوم چچا سے کیا گیا میرا عہد نبھاؤ گے۔ میں اولاد کے ساتھ زور زبردستی کا ہرگز قائل نہیں۔ زندگی تم نے گزارنی ہے اس لئے تم سے تمہاری مرضی پوچھے بغیر میں کبھی بھی آگے نہیں بڑھ پاؤں گا۔ میرے بچے میں شادی کے لیے تمہاری چھوٹی سی ہاں کا منتظر ہوں۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4